پاکستان میں عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری 2024 کی تاریخ کا اعلان

خاتون بیلٹ باکس میں ووٹ ڈال رہی ہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, حسن عباس
  • عہدہ, صحافی

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدرِ پاکستان سے مشاورت کے بعد ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آٹھ فروری 2024 کو منعقد کروانے کا اعلان کیا ہے اور ادارے کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات منعقد کرانے کے لیے تمام ضروری تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے دو نومبر کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ 'چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سرابرہی میں کمیشن کے ارکان نے صدر پاکستان سے الیکشن کی تاریخ کے سلسلے میں ملاقات کی جس میں متفقہ طور عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ طے کی گئی۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن کے وکیل نے سپریم کورٹ میں عام انتخابات کے لیے 11 فروری کی تاریخ دی تھی جس پر عدالت نے انتخابات کی مجوزہ تاریخ پر صدر عارف علوی سے فوری مشاورت کر کے حتمی تاریخ طے کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اس معاملے کی سماعت کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ جس تاریخ کا اعلان کیا جائے گا، عدالت اس میں توسیع کی کوئی درخواست قبول نہیں کرے گی۔

پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ تو بالاخر سامنے آ گئی ہے لیکن الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوالات کے جواب ملنا اب تک باقی ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں سنہ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونا تھی۔ تاہم اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت سے قبل ہی نو اگست کو اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔

آئین کے تحت عام انتخابات اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن بعد ہونا تھے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کا انعقاد التوا کا شکار ہوا۔

ایسے میں ’الیکشن کب ہوں گے‘ کا سوال پاکستان میں اہم ہوتا چلا گیا۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو شائع کر دی جائے گی اور ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات و تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی۔‘

واضح رہے کہ رواں سال تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اب تک ان دونوں صوبوں میں بھی انتخابات نہیں ہو سکے اور اب یہ انتخابات بھی دیگر صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ہی منعقد ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔

ایک شخص پولنگ سٹیشن میں بیلٹ پیپر کا معائنہ کر کرہا ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آئین کیا کہتا ہے؟

واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 52 میں قومی اسمبلی کی مدت کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔ اس میں درج ہے کے قومی اسمبلی کی مدت پانچ برس ہے۔

یہ مدت کسی حکومت کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی ہے جس کا آغاز ہر پانچ سال بعد الیکشن کے باعث ہوتا ہے اور اگر اسے مدت سے پہلے تحلیل نہ کر دیا جائے تو یہ مدت پوری ہونے پر خودبخود تحلیل ہو جاتی ہیں۔

آئین کے آرٹیکل (1) 224 کے تحت اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد 90 دن میں الیکشن کروانے لازم ہیں۔

آئینی ماہر اور پاکستان میں الیکشن کی نگرانی کرنے والے غیرسرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان مدثر رضوی نے اسمبلیاں تحلیل ہونے سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’اگر اسمبلیاں آئین کی بتائی گئی مدت پوری کر رہی ہیں تو اس دن کے بعد 60 دن کے اندر اندر الیکشن ہو جانے چاہییں اور اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن ہوں گے۔‘

پاکستان

،تصویر کا ذریعہPM OFFICE

انھوں نے مزید بتایا کہ ’مثال کے طور پر اگر یکم جولائی کو اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ 29 جون کو تحلیل ہو جاتی ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن کروانا ہوں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پرانی انتخابات کمیٹیوں میں بھی یہ بات زیر بحث آئی تھی کہ 60 دن اور 90 دن شاید انتخابات کی تیاری کے لیے ناکافی ہیں ایک یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 120 دن کی مدت رکھنی چاہیے لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔‘

مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’شاید اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ الیکشن کروانے میں کتنا وقت چاہیے ہوتا ہے کیونکہ جتنا بڑا ہمارا ملک ہے یہاں ایک الیکشن نہیں ہوتا ایک دن میں ’قومی اور صوبائی حلقے ملا کر 800 یا 850 الیکشن ہوتے ہیں جس کے لیے تقریباً 10 لاکھ کے قریب عملہ چاہیے ہوتا ہے۔‘

انتخابات میں تاخیر کی وجہ؟

اس التوا کی سرکاری وجہ سابقہ حکومت کی جانب سے نئی مردم شماری کی منظوری بتائی گئی تھی جو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں دی گئی۔

اس منظوری کے بعد سابقہ حکومت کا مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن کو ملکی آبادی کے تازہ تخمینے کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کرنی ہوگی۔

اس وقت وزیراعظم شہباز شریف نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے حکومتی مؤقف کو غلط قرار دیا۔

اس وقت تحریک انصاف رہنما حماد اظہر نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’میں بھی سی سی آئی کا رکن رہا ہوں اور یہ معاملہ پہلے بھی اس کونسل کے سامنے آیا جس میں وزیر قانون نے بتایا تھا کہ مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن میں التوا نہیں ہو سکتا۔‘

پاکستان

،تصویر کا ذریعہFACEBOOK/IMRAN KHAN

حماد اظہر کا موقف تھا کہ ’جس طرح نگران وزرائے اعلی کو بٹھا کر مردم شماری کی منظوری دی گئی، اس طرح تو کوئی بھی حکومت آخری چار پانچ دنوں میں سی سی آئی کا اجلاس بلائے گی اور کہے گی کہ نئی مردم شماری ہو گی اور الیکشن آگے کروا دے گی۔‘

اگست میں صدر پاکستان عارف علوی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ایک خط بھی لکھا گیا۔

اس خط میں کہا گیا کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا، صدر آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے اسمبلی تحلیل کی تاریخ کے 90 دن میں تاریخ مقرر کرنے کے پابند ہیں۔

صدر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ملاقات کے لیے مدعو کیا تاہم ان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جوابی خط میں مطلع کیا گیا کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت انتخابات کی تاریخ دینا صرف الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے۔

یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے پیشرو جسٹس عمر عطا بندیال کے برعکس الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کے درمیان ایک متفقہ تاریخ طے کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے عدالت کو بتایا کہ ملک میں عام انتخابات 11 فروری کو ہوں گے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے ملاقات کی اور پھر یہ اعلان کیا کہ اتفاق رائے سے ملک میں عام انتخابات 8 فروری کو ہو گا۔ تاہم سپریم کورٹ نے 90 دن میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق آئینی بحث کو نہ چھیڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمے کو نمٹا دیا۔

واضح رہے کہ ماضی میں بھی 90 دن کی آئینی مدت سے زیادہ انتخابات میں التوا کی نظیریں ملتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے
پاکستان کے صدر عارف علوی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ماضی میں الیکشن میں التوا

خیال رہے کہ ماضی میں غیرمعمولی حالات کو وجہ بتا کر انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔

وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک بار سنہ 1988 میں جب ملک میں سیلاب آیا تھا جبکہ دوسری بار 2007 میں جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ واضح رہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد الیکشن کمیشن نے خود انتخابات میں التوا کا اعلان کیا تھا کیونکہ ملک میں کمیشن کی عمارات جلا دی گئی تھیں اور حالات الیکشن کے لیے سازگار نہیں تھے۔‘

تاہم الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق سنہ 1988 میں فوجی صدر ضیاالحق نے اپنے قوم سے خطاب میں ملک میں عام انتخابات کے لیے 16 نومبر 1988 کی تاریخ دی تھی۔ یہ تاریخ 90 دن کی مدت سے زائد ضرور تھی مگر سیلاب یا ضیاالحق کے طیارہ حادثے کی وجہ سے الیکشن ملتوی نہیں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے 16 نومبر کو قومی اسمبلی اور اس کے تین روز بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے تھے۔

تاہم یہ التوا کس صورت میں کیا جا سکتا ہے اس بارے میں قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس حوالے سے آئین میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا ہے اور اس حوالے اوپر دی گئی ماضی کی مثالوں کے مطابق کسی غیر معمولی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کر چکا ہے۔

ماہر قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس میں ’مینڈیٹری ان نیچر‘ اور ’ڈائریکٹری ان نیچر‘ قوانین میں فرق ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 یہ کہتی ہے کہ آئین میں اگر کسی کام کا وقت مقرر ہو اور وہ اس وقت پر نہ ہو سکے تو وہ کام خراب نہیں ہوتا۔ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔‘

’اگر قانون کے تحت کسی بھی کام کا وقت مقرر ہو اگر آپ وہ کام اتنے دنوں میں نہیں کریں تو وہ غیر قانونی ہو گا، غلط ہو گا اور اسے اگر نہ کیا تو اس میں سزا ملے گی تو اس کام کو اتنے دنوں میں کرنا ضروری ہوتا ہے تو وہ مینڈیٹری ان نیچر ہوتا ہے۔‘

’رولز کے مطابق اگر کسی کام میں یہ بتایا جائے کہ آپ کو اتنے دنوں میں یہ کام کرنا ہے لیکن اس کی تاخیر میں سزا یا جرمانے کا ذکر نہ ہو تو وہ ڈائریکٹری ان نیچر ہوتا ہے تو 90 روز میں انتخابات ڈائریکٹری اِن نیچر ہے جس میں وہ کام ضرورتاً آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے اور اس میں قباحت نہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ اس کام میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن کوشش کریں کہ کم سے کم وقت آگے جائے۔۔۔ گویا انھوں نے بات طے کر دی۔‘

بیرسٹر ظفر اللہ کے مطابق ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 کے مطابق الیکشن لیٹ بھی ہوئے تو بھی یہ درست عمل ہو گا خلاف قانون نہیں۔‘