’خوبصورت‘ نظر آنے کے لیے کاسمیٹک سرجری: ’مجھے لگا تھا کہ شاید چہرے پر بال آنا کم ہو جائیں گے‘

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ترہب اصغر
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام لاہور

خوبصورت لگنا کسے اچھا نہیں لگتا۔۔۔! لیکن اگر خوبصورت لگنے کے لیے مختلف قسم کے پروسیجرز یا پھر سرجری کروانا پڑے تو کیا آپ ایسا کرنے پر راضی ہو جائیں گے؟

یہ وہ سوال ہے جس کے جواب میں بیشتر لوگ ’ہاں‘ میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پیسے ہوں تو کیوں نہیں۔ تاہم کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو قدرتی خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں اور ایسی تمام تر چیزوں سے دور رہتے ہیں۔

پُرکشش لگنے کے لیے دینا بھر میں کاسمیٹک سرجری اور ایستھیٹک پروسیجرز کا سہارا کچھ عرصے پہلے تک تو صرف سلیبرٹیز (مشہور شخصیات) لیا کرتے تھے لیکن اب یہ شوق عام لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے، جن میں پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔

ڈرمٹالوجسٹ ڈاکٹر کامران قریشی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں پچھلے تین چار سالوں میں یہ رجحان بڑھا ہے اور اب ہر عمر اور جنس کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جلد کے مسائل یا پھر بیماری کی وجہ سے ہمارے پاس علاج کے لیے آتے ہیں۔ لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی جو ایسے پروسیجر کروانا چاہتے ہیں جن کے بعد وہ مزید خوبصورت لگ سکیں۔‘

خوبصورت

،تصویر کا ذریعہInstagram

کاسمیٹک پروسیجرز کا رجحان مرد اور خواتین دونوں میں

زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواتین ہی پُرکشش لگنے کے لیے ان چیزوں کا سہارا لیتی ہیں لیکن آج کل مرد بھی ایسے تمام پروسیجرز کرواتے ہیں۔ رضا منیر کا شمار بھی ایسے ہی مردوں میں ہے جو مختلف قسم کے استھٹیک اور کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں۔

ان کے بقول ’ویسے تو یہ کام ہمارے ارد گرد اکثرلوگ کرواتے لیکن مانتے نہیں ہیں۔ ان سے جب پوچھو کہ آپ نے کچھ کروایا تو ایسے محسوس کرواتے ہیں کہ وہ تو پیدا ہی ایسے ہوئے تھے اور ان میں جو بھی تبدیلی آئی ہے وہ قدرتی ہے۔‘

ان کا مزید دعویٰ تھا کہ زیادہ تر مرد ماڈل اور اداکار یہ پروسیجرز کرواتے ہیں تاہم عام مرد حضرات بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں۔

درجنوں قسم کے پروسیجرز میں مردوں میں سب سے مقبول ہیئر ٹرانسپلانٹ ہے، جو مرد اپنے گنج پن کو کم کرنے کے لیے کرواتے ہیں۔

حال ہی میں اس سرجری سے گزرنے والے محمد علی نے بی بی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک تکلیف دہ سرجری ہے جو تقریبا تیرہ سے چودہ گھنٹے طویل ہے۔ اس میں ڈاکٹر آپ کے سر کے حصے پر بال لگاتے ہیں جہاں گج پن ہوتا ہے اور اس پر کم سے کم ڈھائی سے تین لاکھ روپے تک لاگت آتی ہے۔‘

دوسری جانب خواتین میں مختلف اقسام کے فیشل، لپ فلرز، لیزر پروسیجرز، مصنوعی پلکیں لگوانے کے علاوہ رنگ گورا کرنے والے انجیکشن لگوانے کا ٹرینڈ زیادہ پایا جاتا ہے۔

face

،تصویر کا ذریعہinstagram

کاسمیٹک پروسیجرز آپ کو خوبصورت بنانے میں کیسے مدد کرتے ہیں؟

کاسمیٹک پروسیجر کسی طبی وجہ کے بجائے اپنے جسم کے مخصوص حصّے میں تبدیلی لانے کے لیے کروائے جانے والے والے میڈیکل پروسیجر یا آپریشن کاسمیٹک سرجری کہلاتا ہے۔

یہ عموماً لوگ اس وقت کرواتے ہیں جب وہ اپنے جسم کے کسی حصّے کی ساخت سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ یا پھر وہ اپنے نظریات کے مطابق خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں۔ کسی کو اپنے ہونٹ نہیں پسند ہوتے تو کوئی جبڑا نمایاں کرنا چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اپنی ناک پسند نہیں ہوتی اور وہ اسے من پسند بنانے کے لیے سرجری کروا لیتے ہیں۔

اس انڈسٹری سے منسلک ڈاکٹر حنا فاروق کے مطابق ’ہرپروسیجر مختلف ہوتا ہے۔ آپریشن کے علاوہ بعض پروسیجر مختلف کیمیکلز کو انجیکٹ کر کے کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ماتھے کی شکنیں اور آئی بیگز کو غائب کرنے کے لیے بوٹوکس کے انجیکشن لگوائے جاتے ہیں۔‘

بوٹوکس ایک نیورو ٹوکسن کیمیکل ہے جو مسلز کو وقتی طور پر فریز کر کے سکڑنے سے روکتا ہے۔ چہرے کی جھریوں اور ڈبل چِن سے جان چھڑانے کے لیے فلرز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس پروسیجر میں بھی کئی طرح کے کیمیکلز شامل ہیں۔

ڈاکٹر حنا فاروق نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’لوگوں کو اصل مسئلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پروسیجر کے نتائج بھی ویسے ہی آئیں جیسے کسی دوسرے شخص کے آئے ہیں۔ جبکہ ان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر انسان کی جلد اور جسم دوسرے سے مختلف ہوتی ہے‘۔

cosmetic surgery

،تصویر کا ذریعہinstagram

کاسمیٹک پروسیجرز’اب ایک لت بن گئی ہے‘

ماہرین کے مطابق ان ٹریٹمینٹس سے جہاں آپ ایک طرف خوبصورت دکھائی دے سکتے ہیں تو وہیں ان کے نقصانات بھی موجود ہیں۔ اس لیے ایسے پروسیجرز میں رسک موجود ہوتا ہے۔

رضا منير جو کئی قسم کے کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں، ان کے مطابق ان کے بیشتر پروسیجرز کے منفی نتائج آئے۔ جیسا کہ انھوں نے آنکھوں کے گرد حلقوں کو لیزر کے ذریعے کم کروانا چاہا تو ان کو آنکھوں میں جلن اور خارش کی شکایت ہونے لگی جس کی وجہ سے انھوں نے اس پروسیجر کو روک دیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ میں نے چہرے کے اضافی بالوں کے لیے جب لیزر کروایا تو اس کے نتائج بھی اچھے نہیں آئے۔

رضا منیر نے بتایا ’مجھے لگا تھا کہ شاید میرے چہرے پر بال آنا کم ہو جائیں گے۔ لیکن یہاں تو الٹا زیادہ سیاہ بال آنے لگے ہیں۔ اب میرے پاس یہی راستہ ہے کہ یا تو میں تھریڈنگ کرواؤں یا پھر سے لیزر کرواؤں۔‘

جہاں ایک طرف کچھ لوگوں کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو ان پروسیجرز سے فائدہ بھی ہوا ہے۔

اداکارہ سعدیہ فيصل نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے کیس میں مجھے تو بہت فائدہ ہوا ہے۔ میرے چہرے پر دانے نکلنے کی وجہ سے جلد خراب ہو گئی تھی۔ اس کے لیے میں نے لیزر ٹریٹمنٹ کروائی اور وہ ٹھیک ہو گئے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے علاوہ بھی میں نے آج تک جو پروسیجر کروائے ہیں مجھے ان کے اچھے نتائج موصول ہوئے ہیں۔ بس اس میں آپ کو ایک بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ آپ کو ان نتائج کو برقرار رکھنے کے لیے وہ ٹریٹمینٹ مسلسل کرواتے رہنا چاہیے۔‘

سعدیہ بتاتی ہیں ’میں جب اپنے ڈرمٹالوجسٹ کے پاس جاتی ہوں تو وہاں جو لوگ آتے ہیں ان سے کہتے ہیں ہمیں یہ کر دیں، ویسا کریں، وہ فلر لگا دیں۔ اب یہ ایک لت بن گئی ہے کیونکہ آپ کو نتائج اچھے ملیں گے تو آپ کا دل کرے گا کہ آپ مزید اچھے لگیں۔‘

یہ بھی پڑھیے
علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کاسمیٹکس پروسیجرز کے ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس

  • ہیما ٹوما: جو کوئی فیس لفٹ کراتا ہے تو کبھی کبھار خون جمع ہو کر کسی زحم کی طرح نظر آتا ہے اور پھر اسے نکالنے کے لیے مزید سرجری کرنا پرتی ہے
  • سیروما: سرجری کے بعد سٹیروائل مادہ جلد کے نیچے اکٹھا ہو جاتا ہے اور اس سے سوجن اور تکلیف ہوتی ہے
  • انفیکشن: دیگر سرجریز کی طرح کاسمیٹکس سرجری میں بھی انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے لیکن پلاسٹک سرجری میں یہ بہت عام ہے
  • اعضا کو نقصان: لپوسکشن کے دوران جسم کے دوسرے اعضا بھی متاثر ہو سکتے ہیں اس طرح کی انجریز کو ٹھیک کرنے کے لیے مزید سرجریز کرنا پڑتی ہیں

تحقيق کر کے اچھے اور درست کلینک کا انتخاب

نہ صرف سعدیہ بلکہ پاکستان میں اداکاراؤں کی ایک بڑی تعداد کاسمیٹک سرجریز کروا رہی ہے۔ جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔ لیکن ان سب کے تجربات اچھے ثابت نہیں ہوئے۔

اداکار زاہد خان بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے مداحوں سے یہ حقیقت نہیں چھپائی بلکہ اسے دوسروں کی آگاہی کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چیزیں غلط ہو سکتی ہیں۔ ہم سجمھتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا پروسیجر ہے، سب کرتے ہیں۔ لیکن میرے کیس میں یہ بہت بہت بُرا ثابت ہوا۔‘

اسی طرح پاکستانی اداکار ساجد حسن نے بھی بال لگوانے کے لیے پروسیجر کروایا جو صحیح نہیں ہوا اور الٹا ان کے سر کی جلد بُری طرح سے جل گئی۔ یہ تفصیلات انھوں نے خود سوشل میڈیا پر شئیر کی تھیں۔ جس کے بعد ایک پلاسٹک سرجن اور اداکار فہد مرزا نے ان کا ٹریٹمنٹ کیا۔

کاسمیٹک پروسیجرز کے بڑھتے ہوئے ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے سرٹیفائیڈ ڈاکٹروں کے علاوہ اب مختلف بیوٹی پالرز بھی کئی قسم کے فیشلز کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

پاکستان میں اس انڈسٹری کے لیے حکومت قواعد اور ضوابط بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، لیکن اس میں ابھی کئی مراحل طے کرنا باقی ہیں۔

دوسری جانب ڈاکٹرز لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جب بھی آپ کوئی ایسا پروسیجر کروانا چاہیں تو پہلے اس بات کی مکمل تحقیق کریں کہ جس سے آپ یہ پروسیجر کروانا چاہتے ہیں کیا وہ سرٹیفائد ماہر ہے یا نہیں۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر کامران قریشی کا کہنا تھا کہ ’آج کل زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر ویڈیوز دیکھ کر ٹریٹمینٹ کروانے چلے جاتے ہیں۔ ہر چیز جو سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے وہ سچ نہیں ہے۔ اس کی تصدیق کرنا ضروری ہوتی ہے۔‘

اس کے علاوہ لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کاسمیٹک پروسیجرز کہاں سے سستے ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ جب ایک چیز سو روپے کی ہے تو وہ کوئی پچاس روپے میں کیسے دے رہا ہے؟ سستے اور غیر معیاری مواد استعمال کرنے سے آپ کی جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’میرے پاس 40 فیصد ایسے مریض آتے ہیں جو کاسمیٹک پروسیجر یا سرجری خراب ہونے کے بعد اسے ٹھیک کروانے آتے ہیں۔ اس لیے میرا سب کے لیے یہی مشورہ ہے کہ ہمیشہ تحقیق کرکے کلینک اور ڈاکٹر کا انتخاب کریں۔‘