بدھاں بائی کی ’سہگل حویلی‘ شیخ رشید احمد کی لال حویلی کیسے بنی؟

  • ذکیہ نیّر
  • صحافی
لال حویلی

،تصویر کا ذریعہRaja Asim

راولپنڈی کے بوہڑ بازار سے گزر ہو تو لال حویلی پر نگاہیں ضرور ٹکتی ہیں جسے شہر کی پہچان کہا جاتا ہے۔ حویلی کے سامنے برسوں سے مقیم چاچا صادق کہتے ہیں کہ ’کبھی رات کے اندھیروں میں یہاں حسن و جمال کے مدح سراؤں کی بھیڑ لگا کرتی تھی، سُر تال کی محفلیں سجتی تھیں۔ اب یہاں سیاسی شطرنج کی بساط سجتی ہے۔‘

لال رنگ میں رنگی یہ عمارت کس نے بنوائی؟ شیخ رشید احمد صاحب کے پاس کب سے ہے اور راولپنڈی کی باقی عمارتوں سے قدرے مختلف اس رہائش گاہ کی تاریخ کیا ہے؟ یہ وہ سوال تھے جن کے جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم بوہڑ بازار جا پہنچے۔

حویلی کے آس پاس دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے بزرگوں سے حویلی سے جڑی داستانیں سن کر قدم محکمہ اوقاف کی جانب بڑھتے چلے گئے جہاں موجود اہلکاروں نے کچھ کاغذ الٹ پلٹ کر بتایا کہ ’حویلی کے کچھ حصے جن میں مندر بھی شامل ہے، محکمے کے پاس ہیں، جبکہ ایک حصہ شیخ صاحب کا ہے۔‘

واضح رہے کہ جمعرات کی علی الصبح راولپنڈی کے متروکہ وقف املاک نے لال حویلی کو سیل کر دیا ہے۔

محکمہ اوقاف کی کارروائی کے دوران مقامی پولیس اور ایف آئی اے کے اہلکار بھی لال حویلی کے سامنے موجود تھے۔

لال حویلی

،تصویر کا ذریعہSheikh Rashid

حویلی اندر سے کیسی ہے؟ کیسے ایک حویلی میں محبت کے لیے بنائی گئی راہداریاں سیاست کی بھول بھلیوں کی نذر ہوئیں۔۔۔ کیا اس سے جڑی داستان کے کرداروں کو اب بھی حویلی کے اندر جا کر محسوس کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کا تعلق اس کی ملکیت سے جڑے قانونی تنازعے سے ہے۔

شیخ رشید احمد اپنی کتاب ’فرزند پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’پاکستان بننے سے بہت پہلے کی بات ہے کہ جہلم کے ایک خوشحال ہندو گھرانے کے چشم و چراغ بیرسٹر دھن راج سہگل ایک شادی کی تقریب کے لیے سیالکوٹ گئے جہاں انھوں نے بدھاں بائی کو محو رقص دیکھا۔‘

’دھن راج کو بدھاں کے گھنگروؤں کی جھنکار اس قدر بھائی کے وہ اسے دل بیٹھے۔ محبت کی اسی کہانی نے ’لال حویلی‘ کی بنیاد رکھی۔ دھن راج بدھاں کو اپنے ساتھ راولپنڈی لے آئے اور بوہڑ بازار میں ایک شاندار حویلی بنوائی جو سہگل حویلی کے نام سے مشہور ہوئی۔‘

شیخ رشید احمد اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ’بدھاں بائی مسلمان تھیں اس لیے احترام میں دھن راج نے بدھاں کے لیے حویلی کے صحن میں مسجد اور اپنے لیے مندر بنوایا۔ دونوں اپنی اپنی عبادت گاہوں میں بنا کسی خوف کے عبادت کیا کرتے تھے مگر آج اسی مندر، مسجد اور حویلی کے درمیان کئی گھر حائل ہیں۔‘

حویلی

،تصویر کا ذریعہRaja Asim

آس پاس کے پرانے مکین بشمول چاچا صادق، چاچا امین اور چاچا رحمت بتاتے ہیں کہ ’حویلی میں آنے کے بعد بدھاں صوم و صلوٰۃ کی پابند ہو گئی تھیں۔ آہستہ آہستہ گانا سیکھنے والوں کی تعداد کم اور بدھاں سے اسلامی درس لینے والے بڑھتے گئے۔‘

’فرزند پاکستان‘ کے کچھ اوراق بتاتے ہیں کہ ’بٹوارہ ہوا تو دھن راج نے حویلی بدھاں بائی کو سونپی اور خود خاندان کے ہمراہ انڈیا چلے گئے۔۔۔ بدھاں یہاں اکیلی رہ گئیں۔‘

ادھر عدالت نے اس حویلی کو متروکہ ملکیت قرار دے دیا جس کے بعد حویلی کے 20ویں حصے میں سے صرف وہی حصہ بدھاں بائی کو مل سکا جو آج ’لال حویلی‘ کہلاتا ہے۔

عدالت میں بدھاں بائی سے جج نے کہا کہ وہ بیان دے دیں کہ وہ ہندو ہو چکی ہیں یا دھن راج مسلمان ہو چکے تھے۔ اس دوران دو بار عدالت کی سماعت ملتوی ہوئی کہ بدھاں کو یہ بیان دینے پر قائل کیا جائے اور پوری حویلی صرف انھیں کے حصے میں آئے۔ مگر اس نے عدالت میں کہا کہ ’وی ہیو شئیرڈ ایوری تھنگ ایکسیپٹ ریلیجن۔‘ (یعنی مذہب کے سوا ہم نے سب کچھ بانٹا)۔ یوں حویلی کا بڑا حصہ اُن سے چھن گیا۔‘

بوہڑ بازار کی چھوٹی بڑی دکانیں اور گلیاں بھی کسی زمانے میں عمارت کے صحن کا حصہ تھیں۔

لال حویلی

،تصویر کا ذریعہRaja Asim

چاچا رحمت بتاتے ہیں کہ ’محبت اور حویلی کی تقسیم ہوئی لیکن کرچی کرچی بدھاں بائی ہو گئی۔ محبت دور اور نشانی تقسیم ہوئی تو بدھاں کا وجود بھی بکھر گیا۔‘

شیخ رشید بتاتے ہیں ’اسی حویلی میں چوری کی غرض سے آئے چوروں نے ان کے جوان سالہ بھائی کو بھی قتل کیا۔۔۔ طرح طرح کے لوگ انھیں اکیلا پا کر حویلی میں جھانکتے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ بہت امیر خاتون ہے جن کے پاس سونے چاندی کے زیورات ہیں مگر دامن میں ادھوری محبت اور اس کی منقسم نشانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک رات بدھاں بائی سہگل حویلی چھوڑ گئیں اور کبھی نہ لوٹیں۔ وہ کہاں گئیں، کیوں گئیں، کوئی نہیں جانتا مگر دوبارہ سہگل حویلی میں انھیں کسی نے نہ دیکھا۔‘

پھر سالوں یہ حویلی ویران پڑی رہی کیونکہ خوف کے مارے اس کے کوئی خریدار سامنے نہیں آتا تھا۔

حویلی کے بالکل ساتھ والے مکان کی مکیں یاسمین سناتی ہیں کہ ’وقت وہ بھی آیا جب سہگل حویلی کو لوگ جنوں کی حویلی کہنے لگے کسی کو یہاں بجتی پائل سُنائی دیتی تو کسی کو بدھاں کے قہقہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

شیخ رشید صاحب حویلی خریدنے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’کافی عرصہ گمنامی میں رہنے والی سہگل حویلی کو کشمیر سے آئے ایک خاندان نے دو لاکھ 18 ہزار میں خریدا۔ پھر خریدنے والے نے شیخ رشید کو ساڑھے پانچ لاکھ میں حویلی بیچ دی۔ یوں سہگل حویلی کوڑیوں کے بھاؤ خرید لی گئی۔‘

حویلی کو شیخ رشید نے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا۔ کئی ممتاز سیاستدانوں کو دعوت سخن دینے والی بالکنی بھی توجہ کا مرکز رہی۔ اسی بالکنی میں نوابزادہ نصر اللہ، نواز شریف اور الطاف حسین جیسے سیاستدانوں نے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔

شیخ رشید نے حویلی کی تزئین و آرائش میں لال رنگ کی کشمیری لکڑی کا استعمال کیا۔ نئے رنگ روپ میں ڈھالنے کے بعد اسے نام بھی نیا دیا گیا ’لال حویلی‘۔ یہ نام بھی شیخ رشید احمد کا ہی دیا گیا ہے اور حویلی پر چسپاں اس نام کی تختی بھی سن 80 کی دہائی میں لگائی گئی تھی۔ یوں بدھاں بائی کی سہگل حویلی شیخ رشید کی لال حویلی بن گئی۔

حویلی

،تصویر کا ذریعہRaja Asim

شیخ صاحب یہ بتاتے ہوئے جذباتی دکھائی دیے کہ ’بدھاں بائی کا ڈانس گھر آج بھی موجود ہے جبکہ وہ دو کمرے جن میں وہ رہا کرتی تھیں ان پر پرانے قفل پڑے ہیں۔‘ شیخ رشید صاحب نے بدھاں کا بیڈ جس پر عدالت میں دیا جانے والا بیان کندہ ہے اپنے کمرے میں سجا رکھا ہے.

شیخ رشید نے اپنی کتاب ’فرزند پاکستان‘ میں لکھا کہ ’ایک بار کشمیر سے ایک افسر حویلی دیکھنے آیا وہ رو پڑا اور بولا ’یہ میری ماں بدھاں کی حویلی ہے۔‘

شیخ صاحب کہتے ہیں ’ہم نے اسے روکنا چاہا بدھاں کے بارے میں جاننا چاہا مگر وہ کچھ کہے بنا چلا گیا۔‘

بدھاں کے لیے بنوائی گئی مسجد اب بازار کے رہائشیوں کے استعمال میں ہے جبکہ مندر کی حالت مخدوش تر ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔

شیخ صاحب کی لال حویلی کو اب جزوی طور پر سیل کر دیا گیا ہے لیکن وہ اپنی نجی اور سیاسی محفلوں میں ایک جملہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ ’اگر مجھے چوائس ملے کہ زندگی یا لال حویلی تو میں لال حویلی کو چُن لوں گا۔‘