Got a TV Licence?

You need one to watch live TV on any channel or device, and BBC programmes on iPlayer. It’s the law.

Find out more
I don’t have a TV Licence.

لائیو رپورٹنگ

time_stated_uk

  1. خاتون بیلٹ باکس میں ووٹ ڈال رہی ہیں

    پاکستان کے الیکشن کمیشن نے 8 فروری 2024 کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوالات اب تک باقی ہیں۔ مگر واضح رہے کہ ان سوالات کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی نہیں چھیڑا ہے۔ یہ سوالات ہیں کیا؟

    مزید پڑھیے
    next
  2. فیض آباد دھرنا: سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا تھا؟

    شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

    دھرنا

    اس عدالتی فیصلے میں حکومت کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

    واضح رہے کہ تحریک لبیک کی قیادت نے رکن پارلیمنٹ کے حلف میں مبینہ تبدیلی کے خلاف اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے علاقے فیض آباد پر دھرنا دیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تقریباً تین ہفتے تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج ہو گیا تھا۔

    عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

    عدالت نے آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا تھا کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان وزارتِ دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔‘

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہا گیا تھا کہ’تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں (چینلز اور اخبارات) کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے۔‘

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا۔

  3. فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس: چار سال سے زیرالتوا کیس سماعت کے لیے مقرر

    شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے تین رکنی بینچ تشکیل دیا ہے جو 28 ستمبر کو اس کیس کی سماعت کرے گا جو چار سال سے زیرالتوا ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں بنائے جانے والے اس بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔

    واضح رہےکہ 2019 میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نومبر 2017 میں فیض آباد کے مقام پر انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دیے گئے دھرنے کے خلاف سو موٹو کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

    تاہم اس عدالتی فیصلے کے خلاف وزارت دفاع سمیت سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم، شیخ رشید کے علاوہ انٹیلیجنس بیورو نے بھی نظرثانی کی اپیلیں دائر کر دی تھیں۔

    یہ اپیل چار سال سے التوا کا شکار تھی اور اس دوران سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، سابق چیف جسٹس گلزار احمد اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اسے سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔

  4. نجکاری کا عمل نگران حکومت نے شروع نہیں کیا: فواد حسن فواد

    نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے کہا ہے کہ ’پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ نجکاری کا عمل موجودہ نگراں حکومت نے شروع کیا ہے جو درست نہیں۔‘

    جمعرات کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’کہا جارہا ہے کہ نجکاری کے حوالے سے یہ حکومت ایسا اختیار استعمال کرنے جارہی ہے جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔

    ’پچھلی حکومت نے ایک ترمیم کی سیکشن 230 کے سیکشن ون اور ٹو کے بعد جس میں نگران حکومت کے مینڈیٹ کو وسیع کیا گیا اور اس وقت یہ بات اتنی تفصیل سے ڈیبیٹ کی جاچکی تھی اس میں مزید کوئی غلط فہمی کی گنجائش نہیں تھی۔‘

    وہ کہتے ہیں کہ ’جس دن میں نے چارج سنبھالا حالت یہ تھی کہ جون سے پی آئی اے کچھ لون لینے کی کوشش کر رہی تھی اور میرے آفس میں آنے کے پہلے دن کہا گیا کہ اگر یہ پیسے نہ ملے تو ہمارے جہاز کھڑے ہونے شروع ہو جائیں گے۔‘

    ’جو کام جون سے اب تک نہیں ہوسکا تھا وہ کام ہم نے 48 گھنٹوں کے اندر نگراں وزیر خزانہ کی مدد سے ان پیسوں کا انتظام کیا اور اس وقت پی آئی اے کے تمام جہاز فلائی کررہے ہیں۔‘

    فواد حسن فواد نے کہا کہ ’موجودہ حکومت اور اپنی وزارت کی جانب سے یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہر طرح سے اوپن کام کر رہے ہیں اور نجکاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔‘

  5. ’جنوری میں عام انتخابات 90 روزہ دستوری مدت سے باہر‘ پی ٹی آئی کا ردعمل

    عمران خان

    سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے بیان کو ’باعثِ حیرت‘ قرار دیا ہے۔

    ایک پیغام میں ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ ’دستور الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کی مدتِ مقررہ میں انتخابات کے انعقاد کا پابند بناتا ہے۔ الیکشن کمیشن جنوری کی کسی بھی تاریخ کا تعیّن کرے وہ 90 روزہ دستوری مدت سے باہر ہوگی۔‘

    ’نوّے روز میں انتخابات کے انعقاد کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے معاملے کے حتمی فیصلے تک 90 روز سے باہر کسی بھی تاریخ کو قوم کیلئے قبول کرنا ممکن نہیں۔‘

    پی ٹی آئی کا مزید کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن صاف، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے لیے آئین کے تحت مطلوب ماحول قائم کرنے میں بھی ناکام ہے۔‘

    ان کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان کے انتخابی عمل کی سب سے بڑی فریق سیاسی جماعت تحریک انصاف کو بدترین ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر انتخاب کی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔

    ’دستور کی منشا کے مطابق آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخاب ہی الیکشن کمیشن کے ذمے اور ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے کی واحد سبیل ہے۔‘

  6. نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ پر عمران خان سمیت دیگر کے خلاف ’مجرمانہ سازش‘ کی دفعات شامل

    عمر دراز ننگیانہ/ بی بی سی اردو، لاہور

    نو مئی

    پنجاب کے شہر لاہور میں 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور توڑ پھوڑ کی تحقیقات کرنے والی پولیس ٹیم نے سابق وزیراعظم عمران خان اور دیگر ملزمان کے خلاف چالان میں ریاست کے خلاف ’مجرمانہ سازش‘ کی دفعات کا اضافہ کر دیا ہے۔

    لاہور پولیس کے انویسٹیگیشن کے محکمے کی سینیئر سپرینٹنڈنٹ آف پولیس انوش رحمان نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور دیگر ملزمان کے خلاف 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے تمام مقدمات میں سیکشن 120 بی کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں۔

    تعزیراتِ پاکستان کی شق 120 اس صورت میں لاگو ہوتی ہے جب 'دو یا دو سے زیادہ افراد ریاست کے خلاف مجرمانہ سازش میں ملوث پائے جائیں۔'

    ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور انوش رحمان نے بتایا کہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے درج مرکزی مقدمے کے علاوہ باقی تمام مقدمات میں بھی عمران خان اور دیگر ملزمان کے خلاف یہ دفعہ چالان کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کی تحقیقات میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جائے وقوعہ کے باوجود ان کی طرف سے بغاوت پر اکسانے اور منصوبہ بندی کے شواہد ملے۔‘

    انھوں نے بتایا کہ یہ دفعات پولیس نے پراسیکیوشن کی جانب سے چالان پر اعتراضات لگانے کے بعد چالان کا حصہ بنائی ہیں۔

    بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قانونی ماہر اور وکیل حافظ احسن کھوکھر نے بتایا کہ سیکشن 120 بنیادی طور پر ریاست کے خلاف مجرمانہ سازش کی بات کرتا ہے جبکہ سیکشن 120 کی شق بی اس میں سزا کے حوالے سے ہے۔ 'اس میں کم سے کم سزا چھ ماہ جب کہ زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید کی ہو سکتی ہے۔'

    وکیل حافظ احسن کھوکھر کا کہنا تھا کہ یہ دفعات بنیادی طور تحقیقات کے دوران کسی بھی وقت لگائی جا سکتی ہیں۔ 'تحقیقات کے دوران ہی یہ پتا چل سکتا ہے کہ کوئی مجرمانہ سازش ہوئی ہے یا نہیں اسی لیے یہ دفعات بعد میں لگتی ہیں اور ایف آئی آر کا ابتدائی طور پر حصہ نہیں ہوتیں۔'

    ان کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس نے یہ دفعات اسی وقت چالان کا حصہ بنائی ہوں گی جب پراسیکیوشن نے چالان دیکھنے کے بعد اندازہ لگایا ہو گا کہ ان مقدمات میں دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان مجرمان سازش کرنے کے شواہد موجود ہیں۔

  7. عام انتخابات کے مہینے کا اعلان اور سیاستدانوں کا ردعمل

    الیکشن کمیشن کے اعلان پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے ردعمل سامنے آیا ہے۔

    نگراں وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ ’ہمیں بہت خوشی ہے کہ ملک کے آئین کے تحت انتخابات ہوں گے اور ملک میں اصلاحات، معاشی ترقی اور سیاسی استحکام میں اضافہ ہوگا۔‘

    پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ دینے سے غیر یقینی صورتحال میں بہتری آئے گی۔

    تاہم تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رہنما نیاز اللّٰہ نیازی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے۔

    سابق وفاقی وزیر اور رہنما مسلم لیگ ن نے کہا ہے کہ تمام جماعتوں کو اب الیکشن کی تیاری کرنی چاہیے چونکہ اس اعلان سے بے یقینی کا خاتمہ ہوا ہے۔

    ادھر استحکام پاکستان پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کے اعلان سے غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ ’خوشی ہے کہ نگران سیٹ اپنے حقیقی فرائض کی جانب مستعدی سے بڑھ رہا ہے، یقینناََ نگران سیٹ اپ کا اصل مینڈیٹ انتخابات کا بر وقت انعقاد ہی ہے۔‘

  8. غیر شرعی نکاح سے متعلق درخواست پر عمران خان ذاتی حیثیت میں طلب

    عمران خان

    غیر شرعی نکاح سے متعلق درخواست پر اسلام آباد کے مجسٹریٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو 25 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔

  9. بریکنگعام انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے: الیکشن کمیشن

    الیکشن کمیشن

    الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔

    ایک اعلامیے میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ آج اس نے ’حلقہ بندیوں کے کام کا جائز ہ لیا اور فیصلہ کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو شائع کر دی جائے گی۔

    ’ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات و تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی۔‘

    الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اس کے 54 دن کے الیکشن پروگرام کے بعد ’انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔‘

  10. علامتی تصویر

    اسلام آباد پولیس حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت سکول اور کالجز کے تعلیمی اوقات کے دوران عوامی مقامات اور پارکوں میں سکول یونیفارم میں آوارہ پھرنے والے طلبا کو ان کے متعلقہ سکولز اور کالجز میں پہنچایا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیے
    next
  11. چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو پانچ ہزار روپے جرمانہ کردیا

    چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک پراپرٹی سے متعلقہ کیس میں عدالت کا وقت ضائع کرنے پر وکیل کو پانچ ہزار جرمانہ کر دیا ہے۔

    چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وکیل نے متعلقہ دستاویزات کی طرف پوائنٹ کرنے کے بجائے عدالت کا وقت ضائع کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے اس عمل سے عدالت کو آپ پر اعتبار نہیں رہا۔ جرمانے کی رقم اپنی مرضی کے خیراتی ادارے میں جمع کراکے رسید پیش کریں۔

  12. ’آج تو ٹرک بھر کر نیب کے کیسز کا ریکارڈ آرہا ہے‘: جج محمد بشیر

    نیب

    نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے بعد نیب نے اربوں روپے مالیت کے 81 کرپشن ریفرنسز دوبارہ کھولنے سے متعلق درخواست کی سماعت میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’آج تو ٹرک بھر کر نیب کے کیسز کا ریکارڈ آرہا ہے‘

    جمعرات کو چیئرمین نیب کی طرف سے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران نیب پراسکیوٹر نے احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر کو آگاہ کیا کہ ’کچھ دیر میں مقدمات کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں گے۔‘

    جس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ ’آج تو ٹرک بھر کر نیب کے کیسز کا ریکارڈ آرہا ہے۔‘

    اس ضمن میں احتساب عدالت نمبر دو اور تین کے عملے کو واپس ڈیوٹی پر بلا لیا گیا۔ اس سے قبل احتساب عدالت نمبر دو اور تین کے ججز نہ ہونے کی وجہ سے عملہ دیگر عدالتوں میں تعینات کر دیا گیا تھا۔

    نیب آرڈیننس کو کالعدم دیے جانے کے بعد احتساب عدالت نمبر دو اور تین کے ججز کو بھی تعینات کیا جائے گا۔

    تاہم اس وقت احتساب عدالت نمبر ایک میں جج محمد بشیر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ چیئرمین نیب نے گذشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف کیسز کھولنے کی درخواست دائر کی گئی۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل کے خلاف کرپشن ریفرنس کھولنے کی درخواست دائر کی تھی۔

    نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف کرپشن ریفرنس بھی دوبارہ کھولنے کی درخواست دائر کی تھی۔

    واضح رہے کہ گذشتہ دنوں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی دس میں سے نو ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دی جاتی ہے، 500 ملین کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے تاہم سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شقیں برقرار رکھی جاتی ہیں۔

    عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔

    عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاکہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے، نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں۔

    یاد رہے کہ پارلیمنٹ نے نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25 اور 26 میں ترامیم کی تھیں، اس کے علاوہ نیب قانون کے سیکشن 14، 15، 21 اور 23 میں بھی ترامیم کی گئی تھیں۔

  13. علامتی تصویر

    خوبصورت لگنا کسے پسند نہیں۔۔۔ لیکن اگر خوبصورت لگنے کے لیے آپ کو مختلف قسم کے پروسیجرز یا پھر سرجری کروانا پڑیں تو کیا آپ کراوئیں گے؟

    مزید پڑھیے
    next
  14. بدھاں بائی کی ’سہگل حویلی‘ شیخ رشید احمد کی لال حویلی کیسے بنی؟

    راولپنڈی کے بوہڑ بازار سے گزر ہو تو لال حویلی پر نگاہیں ضرور ٹکتی ہیں جسے شہر کی پہچان کہا جاتا ہے۔ حویلی کے سامنے برسوں سے مقیم چاچا صادق کہتے ہیں کہ ’کبھی رات کے اندھیروں میں یہاں حسن و جمال کے مدح سراؤں کی بھیڑ لگا کرتی تھی، سر تال کی محفلیں سجتی تھیں۔ اب یہاں سیاسی شطرنج کی بساط سجتی ہے۔‘

    لال رنگ میں رنگی یہ عمارت کس نے بنوائی؟ شیخ رشید احمد صاحب کے پاس کب سے ہے اور راولپنڈی کی باقی عمارتوں سے قدرے مختلف اس رہائش گاہ کی تاریخ کیا ہے؟ یہ وہ سوال تھے جن کے جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم بوہڑ بازار جا پہنچے۔

    یہ تفصیلی رپورٹ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے: بدھاں بائی کی ’سہگل حویلی‘ شیخ رشید احمد کی لال حویلی کیسے بنی؟

  15. متروکہ وقف املاک نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی رہائش گاہ ’لال حویلی‘ سیل کر دی

    شہزاد ملک، بی بی سی اُردو ڈاٹ کام

    لال حویلی

    متروکہ وقف املاک راولپنڈی نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی رہائش گاہ ’لال حویلی‘ کو جمعرات کی صبح ایک مرتبہ پھر سیل کر دیا ہے۔

    جمعرات کی صبح ایف آئی اے اور پولیس کی بھاری نفری سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی رہائش گاہ لال حویلی پہنچی تھی جبکہ اس موقع پر محکمہ وقف املاک کے اہلکار بھی موجود تھے۔

    لال حویلی اور اس سے ملحقہ سات اراضی یونِٹس کو سیل کرنے کے حوالے سے چئیرمین متروکہ وقف املاک بورڈ نے گذشتہ روز فیصلہ جاری کیا تھا اور ایف آئی اے اور پولیس سے معاونت طلب کی تھی۔

    متروکہ وقف املاک کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دمدمہ مندر متروکہ وقف املاک کی ملکیت ہے جبکہ شیخ رشید اور ان کے بھائی شیخ صدیق اس پراپرٹی پر غیر قانونی قابض ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ شیخ رشید اور ان کے بھائی لال حویلی سے متعلق کوئی مستند دستاویزات پیش نہیں کر سکے جبکہ ان کے وکلا بار بار دستاویزات پیش کرنے لیے التوا کی درخواست کرتے رہے۔

    یاد رہے کہ لال حویلی کا معاملہ سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے تیسرے دور حکومت سے چل رہا ہے جب اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے لال حویلی شیخ رشید سے خالی کروانے کا بیان دیا تھا، اس کے بعد متعدد بار لال حویلی کے کچھ حصوں کوسیل کیا گیا لیکن عدالتی حکم پر انھیں دوبارہ کھول دیا گیا، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ لال حویلی سمیت وہ تمام حصے سیل کر دیے گئے ہیں جو متروکہ املاک کی ملکیت ہیں۔

  16. قائدین

    پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد میں لگ بھگ 45 فیصد نوجوان ہیں، یہ نوجوان کسی ایسی سیاسی پارٹی سے اپنے مستقبل کی امیدیں کیونکر وابستہ کریں گے جس کے قائد، چیئرمین یا شریک چیئرمین 70 سال سے زیادہ کے بزرگ ہیں؟ بڑھاپا دماغ کو کس طرح متاثر کرتا ہے اور سیاسی قیادت کرنے کے لیے ’حدِ عمر‘ کتنی ہونی چاہیے؟

    مزید پڑھیے
    next
  17. انڈیا کا ’بیرون ملک قتل کا نیٹ ورک‘ عالمی شکل اختیار کر گیا ہے:ترجمان دفترخارجہ

    ترجمان دفتر خارجہ

    پاکستان کے دفترخارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ ’سکھ رہنما کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کے کینیڈا کے الزامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی دہلی کے ’بیرون ملک قتل کا نیٹ ورک‘ عالمی شکل اختیار کر گیا ہے۔‘

    ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے اسلام آباد میں بریفنگ کے دوران کینیڈا کے انڈیا پر ان کے شہری سکھ رہنما کے قتل کے الزام سے متعلق سوال پر کہا کہ انڈیا کی خفیہ ایجنسی را جنوبی ایشیا میں بھرپور انداز میں اغوا اور قتل میں ملوث ہے۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان بھی را کی ٹارگٹ کلنگ اور جاسوسی کے سلسلے کا نشانہ بنتا رہا ہے۔

    ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ برس دسمبر میں ایک جامع ڈوزیئر جاری کیا تھا، جس میں جون 2021 میں لاہور میں ہونے والے حملے میں انڈیا کے ملوث ہونے کے بنیادی اور ناقابل تردید ثبوت پیش کیے گئے تھے۔ اس حملے کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد انڈیا کی خفیہ ایجنسی نے کیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ 2016 میں انڈین فوج کے اعلیٰ عہدیدار کلبھوشن یادیو پاکستان میں عدم استحکام اور دہشت گردی کے لیے ہدایات، فنڈز دینے اور اس پر عمل درآمد کروانے کا اعتراف کر چکے ہیں۔

    ترجمان نے کہا کہ ’کینیڈا کی سرزمین میں اسی کے شہری کو انڈیا کی جانب سے قتل کرنا عالمی قانون اور اقوام متحدہ کے ریاستی خودمختاری کے اصول کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے‘۔

    ممتاز زہرہ بلوچ نے بیان میں کہا کہ ’ یہ لاپرواہی اور غیرذمہ دارانہ اقدام ہے، جس سے انڈیا کے بطور قابل اعتماد عالمی شراکت دار اور ان کے عالمی ذمہ داریوں کی بہتر ادائیگی کے دعووں پر سوال اٹھ گیا ہے۔‘

  18. سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیب نے اربوں روپے مالیت کے 81 کرپشن ریفرنسز دوبارہ کھول دیے

    نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے بعد نیب نے اربوں روپے مالیت کے 81 کرپشن ریفرنسز دوبارہ کھول دیے ہیں۔ نیب نے اسلام آباد میں واقع احتساب عدالت میں 81 کرپشن ریفرنسز دوبارہ کھولنے کی درخواست دائر کردی ہے۔

    یہ درخواست چیئرمین نیب کی طرف سے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں دائر کی گئی ہے۔

    سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف کیسز کھولنے کی درخواست دائر کی گئی۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل کے خلاف کرپشن ریفرنس کھولنے کی درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔

    اسحاق ڈار کے خلاف کرپشن ریفرنس بھی دوبارہ کھولنے کی درخواست کر دی گئی ہے۔

  19. ارشد شریف کے قتل کے مقدمے کی عدالتی کارروائی روک دی گئی

    اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے صحافی ارشد شریف قتل کیس میں سرکاری اور پرائیویٹ گواہان کی عدم پیشی اور عدم دلچسپی کے باعث کیس داخل دفتر کر دیا ہے یعنی اس پر فی الحال مزید کارروائی روک دی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ صحافی ارشد شریف سنہ 2022 کے اگست کے مہینے میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے، جہاں انھیں اکتوبر میں قتل کردیا گیا۔

    جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے گذشتہ سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس کی کارروائی روک دی گئی ہے اور گواہان کی عدم پیشی اور عدم دلچسپی کے باعث کارروائی کی فائل ریکارڈ روم بھیج دی گئی ہے۔

    تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 16 مارچ کو ارشد شریف قتل کیس میں عدالت کو تعزیرات پاکستان کے سیکشن 512 کا چالان موصول ہوا، جس کے بعد پانچ اپریل کو بیانات ریکاڑ کرانے کے لیے عدالت نے گواہان کو طلبی کے نوٹسز بھیجے۔

    عدالت نے کہا کہ متعدد بار بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے گواہان کو طلب کیا گیا لیکن کوئی پیش نہیں ہوا، کیس میں گواہان کی بیان ریکارڈ کروانے میں دلچسپی نہیں ہے۔ عدالت کے مطابق 15 مرتبہ پراسیکیوشن کو ثبوت جمع کروانے کا موقع دیا گیا۔

    عدالت نے کہا کہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ارشد شریف قتل کیس کی کارروائی روک دی جاتی ہے اور گواہوں کی پیشی کی صورت میں پراسیکیوشن نئی تاریخ کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہے۔

  20. چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بینچز کی تشکیل اور زیرالتوا مقدمات پر مشاورت ہوئی: وکیل رہنما

    سپریم کورٹ میں بینچز کی تشکیل اور زیر التوا مقدمات کا معاملے پر مشاورت کے لیے چیف جسٹس نے وکیل رہنماؤں سے مشاورت کی اور ان سے تحریری تجاویز بھی طلب کیں۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ اس وقت پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر بھی سماعت کر رہا ہے۔ آج عدالت نے اس کیس پر ہونے والی سماعت کا تین صفحات پر مشتمل تحریری حکمانامہ بھی جاری کیا۔ اگرچہ اس حکمنانے میں سٹے آرڈر خارج کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم چیف جسٹس نے بینچز کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے سے متعلق میکنزم بنانے کے لیے مشاورت کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔

    بدھ کو وکلا کی نمائندہ تنظیم کے رہنماؤں سے اس سلسلے میں مشاورت بھی کی گئی۔

    اس مشاورتی اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس سردار طارق مسعود اور پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں فراہمی انصاف کو بہتر بنانے کے لیے وکلا تنظیموں کے نمائندوں نے تجاویز پیش کیں۔ اجلاس میں وکلا تنظیموں کے ساتھ بینچز کی تشکیل اور زیر التوا مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کا معاملہ زیرغور آیا۔

    اجلاس میں فوری نوعیت کے مقدمات کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے پر وکلا نے مختلف تجاویز پیش کیں۔

    پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی ہارون رشید نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے آج ہمیں بلایا گیا تھا۔

    ان کے مطابق جو جو ہمارے مسائل تھے آج کے اجلاس میں زیر بحث آئے۔

    پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی حسن رضا پاشا نے کہا کہ آج چیف جسٹس نے از خود ہمیں بلایا اور ہماری تجاویز سنیں۔ ان کے مطابق چیف جسٹس نے ہم سے تحریری تجاویز مانگیں۔

    ان کے مطابق ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس میں بار کے نمائندے کو بھی شامل کیا جائے گا۔ فوری نوعیت کے مقدمات کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے ایک پالیسی بنائی جائے گی۔

    انھوں نے کہا کہ ’ہمیں پوری توقع ہے کہ چیف جسٹس نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری تجاویز پر سپریم کورٹ عمل کرے گی۔‘